۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
بلتستان

حوزہ/ علامہ شیخ احمد نوری نے کہا کہ گلگت بلتستان کے موجودہ مسائل غزہ اور لبنان کے مسائل سے جدا نہیں ہمیں عالمی اور علاقائی مسائل سے جدا نہیں رہنا چاہیے، اگر ہم مسائل سے لاتعلق رہے تو ہمارا خطہ بھی غزہ کی طرح کے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی المناک شہادت، مسئلہ فلسطین و لبنان اور موجودہ علاقائی مسائل خصوصاً گلگت بٙلتستان کے مسائل کے تناظر میں مجلسِ علماءِ مکتبِ اہلبیتؑ بٙلتستان کا اہم اجلاس سکٙردو منعقد ہوا۔ اجلاس میں سکردو شہر کے نمائندہ علماء و خطباء نے شرکت کی۔ سید المقاومہ شہید سید حسن نصر اللہ، اسماعیل ہانیہ، سردار قاسم سلیمانی اور شہدائے فلسطین و لبنان کے لیے فاتحہ خوانی۔ اجلاس کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا، شیخ عمیر نے تلاوت کا شرف حاصل کیا۔ برادر مدثر نے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیا۔ اجلاس کی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے آغا زمانی نے حاضرین کو اجلاس کے ایجنڈے سے آگاہ کیا اور شارٹ نوٹس پر اجلاس میں علمائے کرام کی تشریف آوری کو باعثِ حوصلہ افزائی قرار دیا اور علمائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔

آغا زمانی نے کہا کہ اگر ہم علاقائی مسائل کو نہ سمجھ سکے تو عالمی مسائل کو بھی نہیں سمجھ پائیں گے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ غاصب صہیونی ریاست کا قیام فلسطین تک محدود رہنے کے لیے نہیں تھا گریٹر اسرائیل کا تصور کئی عرب ریاستوں سے لے کر دریائے سینا اور خراسان تک پھیلانا تھا لیکن اس ظالم جابر بدمعاش ریاست کو فلسطین تک محدود کرکے رکھنا یہ حزب للہ اور حماس کی ممقاومت اور پاکیزہ شہادتوں کی مرہون منت ہے جبکہ صہیونی اور مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے عام انسان اور خصوصاً مسلمان حزب للہ اور حماس کی کامیابیوں اور کارروائیوں سے بےخبر رہتے ہیں، یہ علماء اور خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو منبر اور محراب کے ذریعے آگاہی دیں، منبر و محراب عالمی مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے مقابلے میں ایک موثر میڈیا ہے۔

اجلاس کے مہمان خصوصی رکن جی بی کونسل حجة الاسلام علامہ شیخ احمد نوری نے موجودہ عالمی حالات اور علاقائی مسائل کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی گفتگو کے آغاز میں مجاہد اسلام، بے نظیر سپہ سالار، روحِ مقاومت سید حسن نصر اللہ کی عظیم شہادت پر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمِ کفر عالمِ اسلام کے مقابلے میں ہے، جو طاقتیں شروع سے ہی عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھیں آج ان شیطانی طاقتوں کے چہرے سے نقاب الٹ چکا ہے۔ آج غزہ اور لبنان پر جارحیت کی وجہ سے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے۔

فلسطین مقبوضہ کیسے ہوا؟ حماس کیسے وجود میں آئی؟ امل ملیشیا کی موجودگی میں حزب اللہ کو وجود میں لانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ پورے عالم اسلام کو قابو کرنے کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔ چند کنال زمین خرید کے صہیونی سازشیوں نے کئی کنال زمینوں پر قبضہ کیا اور آج دنیا میں سب سے زیادہ جلا وطن مہاجرین کی تعداد فلسطینیوں کی ہے۔ لہذا حماس کو مجبوراً اسلحہ اٹھانا پڑا اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف جہاد کا آغاز کرنا پڑا۔ آج غاصب صہیونی ریاست کی جانب سے اقوام متحدہ کی تمام قرارداد اور قوانین کو دفناتا جا رہا ہے، مالک کو محکوم بنا کر صہیونی جبری حکومت کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح کی سازش گلگت بلتستان میں کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرفہ رانگا ایک ٹیسٹ کیس ہے، صرف سرفہ رانگا کی زمین حکومت کی جانب سے الاٹ نہیں کی گئی۔ کئی علاقوں میں اس طرح کی الاٹمنٹ ہو چکی ہے ، کوئی علاقہ گلگت بلتستان میں باقی نہیں بچا جو حکومت نے مختلف بہانوں سے اپنے نام کروا نہ لی ہو۔ اور اس کام کے لیے عدالت کو استعمال کیا جارہا ہے۔ آغا سید علی رضوی نے فقط وزیر حسنین کی گرفتاری کے خلاف دھرنا نہیں دیا ہوا ہے بلکہ یہ دھرنے اور احتجاجات گلگت بلتستان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے خلاف ہے۔ یہ دھرنا ہمارے خطے کو فلسطین بننے سے بچانے کے لیے ہے، گلگت بلتستان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے آغا علی رضوی میدان میں موجود ہیں، تمام آگاہ افراد اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں کو مضبوط کریں، دنیا جانتی ہے کہ گلگت بلتستان خصوصاً بلتستان سیاحت کا حب ہے، اس لیے عزیزو ہمیں اپنے علاقے کو فلسطین بننے سے بچانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر حسنین کو رہا کرانے کے لیے دیے جانے والے دھرنے کی حمایت نہیں کریں گے تو ہمارے خطے کے لیے کی جانے والی بڑی سازشوں کو ناکام نہیں کیا جا سکتا۔ گلگت بلتستان کے موجودہ مسائل غزہ اور لبنان کے مسائل سے جدا نہیں ہمیں عالمی اور علاقائی مسائل سے جدا نہیں رہنا چاہیے، اگر ہم مسائل سے لاتعلق رہے تو ہمارا خطہ بھی غزہ کی طرح کے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ہمیں مسئلہ فلسطین سے ہرگز لا تعلق نہیں رہنا چاہیے، اس حوالے سے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی شعور بیدار کریں اور سوشل میڈیا پر مثبت انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

علامہ شیخ احمد نوری نے آغا علی رضوی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ہم آغا علی رضوی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہم سب کو بیداری کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، اب مصلحت پسندی کا زمانہ گزر چکا۔ آخر میں دعائے امام زمانہؑ سے اجلاس کا اختتام کیا گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .